۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی

حوزہ/ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص ایسے اعمال نہ بجالا سکتا ہو جن سے اُس کے گناہوں کا کفّارہ ہو سکے تو چاہئے کہ کثرت کے ساتھ محمدؐ و آل محمدؑ پر درود بھیجا کرے کیونکہ اِس طرح گناہوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔

تحریر : مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی۔ نئی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی। حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام 11 ذیقعدہ 148 ہجری کو مدینہ منورہ میں دنیائے اسلام کے افضل ترین خانوادے میں متولد ہوئے۔ آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضاؑ زریت حضرت پیغمبر اکرمؐ اور آئمہ معصومینؑ میں حضرت علی بن ابی طالبؑ اور حضرت علیؑ بن الحسینؑ کے بعد تیسری عظیم شخصیت ہیں کہ جنکا نام علیؑ ہے۔ آپؑ کے والد معظم سلسلہ  امامت کے ساتھویں اور عصمت و طہارت کے نویں فرد حضرت امام موسیٰ کاظمؑ ہیں  آپؑ کی والدہ ماجدہ وہ مقدسہ و مطہرہ بی بی ہیں جنکا نام تاریخ نے خیزران ، نجمہ ، طاہرہ اور تکتم لکھا ہے ۔ آپؑ کی کنیت ابوالحسن اور القاب صابر ۔ ولی ۔ ذکی ۔ رضی ۔ وصی ہیں لیکن کا مشہور لقب "رضا " ہے اس لقب نے اتنی شہرت حاصل کی کہ یہ آپؑ کے نامِ اطہر کا جزو بن گیا ۔ مشہور محدث اور تین آئمہ اہلیبتؑ حضرات امام موسیٰ کاظمؑ، امام رضاؑ اور امامِ جواد کے صحابی احمد بن محمد بزنطی سے امام جواد فرماتے ہیں کہ جھوٹے اور راہِ حق سے منحرف ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں میرے پدر بزگوار کو " رضا " کا لقب  مامون نے دیا جبکہ سچائی یہ ہے کہ  لقبِ " رضا " والد ماجد کو  پروردگار نے عطا کیا ہے کیونکہ وہ آسمان میں پسندیدہ خدا اور زمین پر پسندیدہ رسول خداؐ و آئمہ معصومینؑ تھے صحابی بزنطی نے امام جوادؑ سے دریافت کیا آپؑ کے اجداد میں یہ صفات موجود نہ تھیں ؟ امامؑ نے فرمایا ہاں وہ سب بھی پسندیدہ خدا و رسولؐ اور آئمہ معصومینؑ تھے لیکن فرق یہ ہے کہ پدر بزگوار کو ان کے مخالفین نے بھی قبول کیا اور راضی بھی رہے۔ جبکہ ہمارے اجداد میں کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا یہی سبب ہے کہ لقب " رضا " آپؑ ہی کو ملا۔  امام رضاؑ کی پرورش آپؑ کے والد بزرگوار امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی سرپرستی میں ہوئی جنکی اطاعت و عبادت خدا وند عالم  اور علمی نشستیں دنیا میں مشہور تھی۔

تاریخ میں امام رضاؑ کی فضیلت و کرامت اور بلندی کردار کے حوالے سے بہت سی روایات و واقعات درج ہیں ۔ آپؑ کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم فرماتے ہیں کہ میرے بابا حضرت امام جعفر صادقؑ  مجھے سے فرماتے تھے کہ عالمِ آلِ محمدؐ تمہاری صلب اور نسل میں ہے اور پھر فرماتے کہ کاش میں (حضرت امام جعفر صادقؑ ) اس کو دیکھ سکتا  پھر فرماتے کہ تمہارا  یہ بیٹا میرے جد امیرالمونینؑ حضرت علی ابن ابی طا لب کا ہم نام ہوگا۔  یہ روایت امام رضاؑ کے مقامِ عظمت و شرف کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

آپؑ کے بلندئ مقامِ کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خودامام جعفر صادقؑ بھی آپؑ کی زیارت کا اشتیاق رکھتے تھے۔ حضرت مرسل اعظمؐ کا یہ ارشاد گرامی بھی آپؑ کے شرف ومقام کا پتہ دیتا ہے فرماتے ہیں پیغمبر اکرمؐ  کہ میرے جسم کا ایک ٹکرا خراسان میں دفن کیا جائے گا۔ غم و اندوہ میں مبتلا ہر وہ شخص جو اس کی زیارت کرے گا۔خدائے عزو جل اس کے غموں کو دور کرے گا اور ہر گنہگار جو اس کی زیارت کو جائے خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔ 

خلیفہ بنی عباسیہ مامون کا دور خلافت شدید ترین قحط پڑا۔ مامون امامؑ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یا فرزند رسولؐ قحط شدید ہے بندگانِ خدا بھوک و پیاس سے پریشان ہیں ملک کی بری حالت ہے آپؑ نزول باراں کے لیے دعا فرمائیں۔ امامؑ نے مخلوق خدا کی پریشانی دیکھکر فوراً مدد کے لیے تیار ہوگئے فرمایا گھبراو نہیں ربِ کریم سے طلب باراں کے لیے نکلوں گا۔ وقت مقرہ پر امامؑ صحرا میں پہونچے مصلٙیٰ عبادت بچھایا اور بارگاہ احدیت میں دست دعا بلند کیا دنیا نے دیکھا ابھی دعا تمام بھی نہیں ہوئی تھی کہ آسمان پر بادل چھا گئے بوندیں پڑ نے لگیں اور ایسی بارش ہوئی کہ پوری مملکت میں جل تھل ہوگیا۔  امامؑ نے اپنے عمل سے بتادیا کہ  اصل جانشین رسولؐ اور الہیٰ نمائندے کی شان کیا ہوتی ہے۔ عوام و بادشاہ کے مرجھائے چہروں پر خوشی و اطمینان ظاہر ہونے لگی ۔ لیکن گمراہی و جہنم جنکا مقدر ہو ان حاسدوں اور منافقوں کو نجات کون دلائے؟ امام رضاؑ کی اس عظیم الشان کرامت کو دیکھکر صحرا میں موجود جم غفیر آپ کی عظمت کا کلمہ پڑھ رہا تھا وہیں حمید بن مہران نامی ایک بدنصیب کہنے لگا بارش ہونے میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہے اب تو بارش ہونی ہی تھی آپ دعا کرتے یا نہ کرتے۔ اگر آپ واقعاً صاحب کرامت و معجزہ ہیں تو اس بچھے ہوئے قالین پر بنی شیر کی تصویر کو  حکم دیں کہ مجھے کھا جائے ۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ بارش تو کرم پروردگار اور عنایت پرور دگار ہے لیکن اگر تیری تمنا ہے کہ قالین والا شیر تجھے پھاڑ کر کھاجائے تو تیری یہ تمنا پورا کیے دیتا ہوں ۔ امامؑ نے قالین پر بنے شیر کو حکم دیا کہ اس فاسق و فاجر کو کھا لے، شیر کی تصویر  مجسم ہو گئی اور چند لمحوں میں اُس گستاخ اہلیبتؑ کو مثلِ حارث ابن نعمان فہری بھونسہ بنا دیا۔ مامون اس کرامت کی تاب نہ لا سکا اور بے ہوش ہو گیا امامؑ نے مامون کو ہوش میں لاکر شیر پھر حکم دیا کہ اپنی پہلی حالت و صورت میں پلٹ جا ۔ امامؑ کا حکم ملتے ہی سے شیر قالین کا حصٙہ بن گیا۔  بنی عباسیہ کا خوشامدی اور غاصب اور خود ساختہ خلیفہ مامون اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے فرزند رسولؐ ، عالم آل محمدؑ ، سلطان عرب و عجم، مبلغِ اسلامی حقائق و معارف ، شب کی تاریکی ذکر الہیٰ اور فقراء و مساکین کو غذا اور درہم و دینار تقسیم کرنے اور اپنے دسترخوان پر پسماندہ اور کمزور طبقے کے افراد کو اولیت دینے والے امام علی رضاؑ  کی بارگاہ میں التجا و منت کر رہا ہے کہ حمید بن مہران کو زندہ کردیں۔ امامؐ نے منشاء پروردگار کے مطابق جواب دیا کہ اگر کلیم خدا حضرت موسیٰ کے عصا نے فرعون کے جادو گروں کو واپس کر دیا ہوتا تو یہ میرا قالینی شیر بھی اس گُستاخ محمدؐ و آل محمدؑ کو واپس کردیتا۔ اس طرح امامؑ نے یہ بتا دیا کہ اللہ نے ہمیں کائنات کی ہر شے حتیٰ موت و حیات پر بھی مکمل اختیار دیا ہے۔   

حضرت امام رضا کی چند تعلیمات
فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خود کو ہم میں سے سمجھتا ہے اور اللہ کی اطاعت نہیں کرتا تو ہر گز وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ 
فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے پر اپنی رحمت برسائے جس نے ہماری تعلیمات کو زندہ کیا۔ صحابی نے دریافت کیا۔ فرزندِ رسولؐ آپؑ کی تعلیمات کو کس طرح زندہ کر سکتے ہیں ؟ امامؑ نے فرمایا ہمارے علوم کو سیکھیں اور لوگوں کو تعلیم دیں کیونکہ اگر عام آدمی ہماری نورانی تعلیمات کی حُسن و خُوبی اور حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو لازمی طور پر ہماری پیروی کرے گا۔ 
فرماتے ہیں جو شخص ایسے اعمال نہ بجالا سکتا ہو جن سے اُس کے گناہوں کا کفّارہ ہو سکے تو چاہئے کہ کثرت کے ساتھ محمدؐ و آل محمدؑ پر درود بھیجا کرے کیونکہ اِس طرح گناہوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔
فرماتے ہیں کہ واجبات کی انجام دہی کے بعد خدا وند عالم کے نزدیک سب سے بہترین عمل مومن کے لیے خوشیوں کا سامان فراہم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
آئیے جشن ولادت با سعادت حضرت امام علی رضا علیہ السلام  کے مبارک و مسعود موقع پر عہد کریں کہ سیرتِ وارثین پیغمبر اکرمؑ عمل کرکے ان ہستیوں سے اپنے رشتوں کو مضبوط کریں گے ، آئیے مضبوط ارادہ کریں کہ ہماری زندگی میں احکامِ  قرآنی اور محمدؐ و آل محمدؑ کی طرز زندگی کی جھلک پائی جائے گی ۔انشاء اللہ تعالیٰ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .